نواز شریف، مریم اور کپٹن(ر) صفدر کی گرفتاری اور پھر ضمانت پر رہائی، نظام عدل کی رسوائی یا عزت افزائی؟


پینے دے مسجد میں بیٹھ کر ساقی
یا وہ جگہ بتا دے جہاں خدا نہیں ہے

نواز شریف، مریم اور کپٹن(ر) صفدر کی گرفتاری اور پھر ضمانت پر رہائی، نظام عدل کی رسوائی یا عزت افزائی؟
جناب چیف جسٹس آف پاکستان و وزیراعظم پاکستان، 
نیانہ گل کرے سیانہ قیاس کرے.

اگر آپ اس بدقسمت قوم کے لئے واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو تو پلیز اس منحوس نظام عدل کو درج زیل تبدیلیوں کے زریعے وقت کے تقاضوں کے مطابق پلٹ دو.

1-
 سول کورٹ ہو یا سیشن کورٹ جہاں بھی آپ نے کسی کیس کو ٹرائل کرنا ہے کریں مگر اسکے بعد فیصلہ اناؤنس مت کریں بلکہ محفوظ کر لیں اور اناؤنس 
کرنے سے پہلے اسکو سپریم کورٹ کی طرز کی ایک چیک اینڈ بیلنس قسم کی کونسل سے گزاریں اور جب 100%یقین ہو جائے کہ فیصلہ 
On merit 
اور مبنی بر حق ہوا ہے تو اسے اناؤنس کر دیں. اور پھر اسکے بعد یہ اپیل، انٹراکورٹ اپیل اور سپریم کورٹ میں ایپل سب کچھ ختم کر دیں. تاکہ عوام کا پیسہ اور وقت بچ سکے. اس اپیل در اپیل کے دقیانوسی سسٹم سے ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے عرب ممالک ہم پر ہنستے ہیں کہ تمہیں اپنے پہلے فیصلے پر ہی یقین نہیں ہوتا کہ وہ
 On merit 
اور مبنی بر حق ہوا ہے اور ٹرائل کورٹ کے فیصلے کرنے والے ججز ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ پر نالاں ہوتے ہیں کہ وہ جتنا جی چاہے ایماندارانہ اور بمطابق قانون فیصلہ دے دیں ہائی کورٹ نے اسے کم ہی سراہنا ہوتا ہے بلکہ اکثر خارج،
 Set aside یا Remand 
ہی کرنا ہوتا ہے.

2- 
ااتھارٹیز صرف سپریم کورٹ کے فیصلے ہی تسلیم کئے جانے چاہئیں.

اس دقیانوسی اور غیر فطری نظام عدل نے اکثر اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی ماری ہے. مثلاً ماتحت عدالتوں میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلے اتھارٹیز کے طور پر تسلیم کئے جاتے ہیں جبکہ ہائیکورٹ کے اکثر آپس میں متصادم اور ماتحت عدالتوں کے لئے 
Complications 
پیدا اور ججز کو
 Disheart
 کرتے ہیں. مثلاً کنزیومر کورٹس کے قیام سے لیکر 2010 تک ہائی کورٹس کے تمام فیصلے یہ تسلیم کرتے رہے کہ تعلیمی ادارے
 Services provider
 اور سٹوڈنٹس کنزیومرز ہیں جبکہ 2013 میں ایک لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس کا ایک فیصلہ آیا جس میں یہ طے کر دیا گیا کہ درس گاہیں
 Services provider 
نہیں اور نہ ہی سٹوڈنٹس کنزیومر ہیں. اسکے بعد تو ججز نے دھڑا دھڑ کیس خارج کرنے شروع کر دئیے.

نواز شریف، مریم اور کیپٹن (ر) صفدر کے کیس کو ہی لے لیجئیے، پہلے جب انہیں ٹرائل کورٹ نے سزائیں سنائیں تو وہ چور، منی لانڈر ٹھہرے اور اب جبکہ انکی سزائیں معطل ہوئی ہیں وہ پارسا اور معصوم ٹھہرے. اگر وہ پارسا اور معصوم تھے تو پھر انکی جو ہتک عزت، توہین ہوئی اور انہیں معاشرے میں Degrade 
کیا گیا اس کا زمہ دار یہ ظالم نظام عدل اور عدالت ہے اور یہ کہ ازالہ کون کرے گا. اور اگر وہ گنہگار تو پھر ٹرائل کورٹ کے جج بشیر صاحب اور نیب افسران خصوصاً واجد ضیاء اور استغاثہ کے دوسرے گواہوں کی جو ملزمان کی سزائیں معطل اور ضمانتیں منظور ہونے سے جو بے عزتی اور جگ ہنسائی ہوئی ہے اور جسطرح انکی جگ ہنسائی اور حوصلہ شکنی ہو رہی ہے، جسطرح انہیں دل برداشتہ کیا گیا ہے کیا وہ دوبارہ کبھی کسی طاقتور کے خلاف کوئی ریفرینس دائر کرنے کی جرات کریں گے.
وڈھے عقلمندو کج سوچو
3-
 راقم 1996 سے یہ شور مچاتا رہا کہ مصالحتی کونسلز /کورٹس بنائی جائیں اور ہر کیس عدالت میں دائر ہونے سے پہلے ان میں گزارا جائے اور ازاں بعد جب دائر ہو جائے تو پھر جواب الجواب کے زریعے بغیر کسی پیشی کے فریقین سے تمام مواد لے لیا جائے اور پھر زبانی، دستاویزی شہادتوں اور جرح و بحث کے لئے صرف ایک تاریخ ڈال کر اسی تاریخ پر فیصلہ محفوظ کر لیا جائے. یہ طریقہ سکینڈن ایوین کنٹریز میں رائج ہے.
تسی کیوں لوکاں نو زلیل کرناں چاہں دے او

Comments

Popular posts from this blog

1974 اور 2018 کے سعودیہ میں فرق.