A man is a social animal. بقول شیکسپئیر
کمی تے کنگال کمینه اے گل کسے نه بهاوے
دهیی چوڈے دی سید منگے فیر دیندا شرماوےمیاں محمد بخش
لالچ،خودغرضی اور بے صبری و،شارٹ کٹ انسان کی فطرتی کمزوریاں هیں. جن پر سوائے آسمانی هدائت یا زندگی کے تجربات سے فائده اٹھائے قابو نهی پایا جا سکتا. انسان بزات خود کچھ بهی نهی،اسکو کچھ بننے ،کچھ کر دیکهانے کے لئے کوئی نه کوئی روش اختیار کرنے کی ضرورت هوتی هے. بقول شیکسپئیر
A man is a social animal.
ایک سیاه فام کے بچے کو اگر گوروں کے کلچر میں پروان چڑهایا جائے تو وه سیاه فام کا خون هونے کے باوجود گوروں جیسی حرکات وسکنات اور گفتگو هی کرے گا. ایک پاکستانی پاکستان میں ره کر ساری عمر بنده نهی بن سکتا مگر جب وه کسی ترقی یافته مهزب کنٹری میں چلا جاتا هے تو پهر اس کلچر میں ایڈجسٹ هونا اسکی مجبوری بن جاتا هے.
میاں محمد بخش رحہ متزکره بالا شعر میں اسی روش هی کی طرف اشاره فرماتے هیں که انسان جب کمی تے کنگالوں والی روش اختیار کرتے هوئے چوڑوں والی جاب قبول کر لیتا هے تو اس وقت اسے یه احساس کیوں نہیں هوتا که انجام کے طور پر اسکے اندر موجود انسانی صفات کی ارتقاع کےبجائے زوال کا سبب بنے گا. اور وه اپنے هی جیسے انسان جو سیدوں (سرداروں) والی روش پر چلا اور اپنی خودی کو پستیوں میں گرانے کی بجائے بلندیوں تک لےگیا کے سامنے اور دوسرے انسانوں کی نظروں میں کمی،کنگال اور کمینه بن کر ره جائے گا.اور انجام کار تو پهر سید کےساتھ ایک چار پائی پر بیٹھنے سےشرماتا اور زمیں پر بیٹھتا اور اپنی زبان سے خود اقرار کرتا هے که سرکار میری کیا اوقات که آپکے برابر بیٹھوں اور اگر کمی تے کنگال کی بیٹی سید کے بیٹے کو پسند کر بیٹھے تو اسکےساتھ رشته داری قائم کرنے سے بهی منه چھپاتا پهرتا هے. حالانکه که بیٹیوں والوں کی تو لڑکے والوں کو منتیں کرنی چاهیں .
ایک سیاه فام کے بچے کو اگر گوروں کے کلچر میں پروان چڑهایا جائے تو وه سیاه فام کا خون هونے کے باوجود گوروں جیسی حرکات وسکنات اور گفتگو هی کرے گا. ایک پاکستانی پاکستان میں ره کر ساری عمر بنده نهی بن سکتا مگر جب وه کسی ترقی یافته مهزب کنٹری میں چلا جاتا هے تو پهر اس کلچر میں ایڈجسٹ هونا اسکی مجبوری بن جاتا هے.
میاں محمد بخش رحہ متزکره بالا شعر میں اسی روش هی کی طرف اشاره فرماتے هیں که انسان جب کمی تے کنگالوں والی روش اختیار کرتے هوئے چوڑوں والی جاب قبول کر لیتا هے تو اس وقت اسے یه احساس کیوں نہیں هوتا که انجام کے طور پر اسکے اندر موجود انسانی صفات کی ارتقاع کےبجائے زوال کا سبب بنے گا. اور وه اپنے هی جیسے انسان جو سیدوں (سرداروں) والی روش پر چلا اور اپنی خودی کو پستیوں میں گرانے کی بجائے بلندیوں تک لےگیا کے سامنے اور دوسرے انسانوں کی نظروں میں کمی،کنگال اور کمینه بن کر ره جائے گا.اور انجام کار تو پهر سید کےساتھ ایک چار پائی پر بیٹھنے سےشرماتا اور زمیں پر بیٹھتا اور اپنی زبان سے خود اقرار کرتا هے که سرکار میری کیا اوقات که آپکے برابر بیٹھوں اور اگر کمی تے کنگال کی بیٹی سید کے بیٹے کو پسند کر بیٹھے تو اسکےساتھ رشته داری قائم کرنے سے بهی منه چھپاتا پهرتا هے. حالانکه که بیٹیوں والوں کی تو لڑکے والوں کو منتیں کرنی چاهیں .
اسی طرح انسان کو گارڈ ( چوکیدار ) کی جاب قبول کرتےوقت یه معلوم هونا چاهیے که اپنے آجر کی وه هدایات /حکم اس نے هرگز نہیں ماننا جس پر عملدرآمد سے اسکے اندر کی انسانی صفات انحطاط پزیر یعنی اسکی خودی مجروح هوتی هو.اسمیں کتوں جیسی حرکات / صفات جنم لیتی هوں. آپ کے تجربے میں بهی یه بات ضرور آئی هوگی که چوکیدار کی ڈیوٹی کرنے والے کچھ لوگ مالکان نے انتنے غلط ٹرینڈ کئیے هوتے هیں که آپ ان سے ملکر نه صرف پریشان هوتےهیں بلکه یه بهی سوچنے پر مجبور هوتے هیں که آپ ان سےملے هی کیوں.همارے معاشرے کا ایک المیه یه بهی هےکه یهاں آجر مزدور کو، کارخانیدار چوکیدار کو، جاگیردار هاری کو کام کی هدایات دیتے وقت اسکی عزت ننفس اور خودداری و انا کا خیال نهی رکهتا.اور انسان کو مه کامل بننے میں مددگار ثآبت هونے کے بجائے اسے حیوانیت کی طرف لےجاتا هے.
Comments
Post a Comment