منافقین کا ٹھکانا مشرکین سے بھی بدتر !


کیا ملالہ اسکے باپ اور اسکے لوؤرز کے پاس دولت کمانے کا یہی ایک راستہ 
تھا؟
یہ منافقین ہیں اور اسلام میں انکی سزا دوزخ کے سب سے نچلے درجے کی ہے یعنی مشرکین سے بھی بدتر.
سب کچھ ٹھیک ہے، تمام کمنٹس کرنے والے بھی سچے ہیں میں ملالہ اور اس کے باپ کی، جرات، بہادری اور تعلیم دوستی کو جھک کر سلام کرتا اگر وہ لعنتی، معلون رشدی، تسلیمہ نسرین کنجری جیسے دوسرے بہت سے اسلام دشمن مسلمانوں کی دل آزاری کر کے اپنی گندی نفسیات کی تسکین حاصل کرنے والے لوگوں کے ساتھ تصاویر نہ بناتے ، ہاں میں ہاں نہ ملاتے ، اربوں ڈالرز کی خاطر یہود و نصارٰی کی کھلی مسلم دشمن تنظیموں سے امداد حاصل نہ کرتے.
اگر اسکا باپ کنجر ضیا اور جیو نیوز کے مالک دلے تصویروں کی چودائی کھانے والے میر برادران وحامد میر جیسے ضمیر فروش کے ساتھ ملکر یہ معصوم ضمیر فروشہ ہمارے و اپنے پیارے نبی صل اللہ علیہ و سلم اور دین کا دفاع کرنے والوں کو بدقسمت اور جاہل گنوار نہ سمجھتے . دین دھرم اور اپنے پیارے نبی صل اللہ علیہ و سلم کی خاطر انسان کیا کچھ کر سکتا ہے،اپنی زاتی زندگی کی چند مثالیں پیش کرتا ہوں.
فروری 1978 میں یہ ناچیز پہلا پاکستانی تھا جسکو ناروے میں ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ فیلڈ میں اپنا زاتی بزنس چلانے /خریدنے کا شرف حاصل ہوا. مجھ سے پہلے کھاریاں /چکوال کے دو لڑکے تھے جو ٹھیکیداری بنیاد پر ایسا کاروبار چلا رہے تھے. یہ وہ دور تھا جب ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ یونین کے اجلاسوں میں ناروے کے مینوفیکچرز، امپورٹرز اور ہول سیلرز ہاتھ پکڑ پکڑ کر میرا تعارف ایک دوسرے سے کرواتے اور مجھے لاکھوں کروڑوں کراؤنز کی پیشکش کرتے کہ اپنے بزنس کو بڑھاؤ، خود بھی کماؤ اور ہمیں بھی کھلاؤ. بڑی اچھی پرکشش پیشکش تھی کس کےمنہ میں پانی نہیں آتا. لیکن میں نے دیکھا کہ بڑی اچھی اچھی تقاریر اور خاص کر Law کے متعلق انتہائی مفید میرے شوق کی انفارمیشن، غرض کہ کیا کچھ نہیں تھا جو یونین ہمیں مہیا نہ کرتی تھی مگر جب ان ساری مصروفیات سے وہ لوگ فارغ ہو جاتے تو کھانے کا دور شروع ہو جاتا اور اسکے فورا"بعد ناچ گانے کا دور ہوتا تو وہ بڑے ہی مخلصانہ طور پر میرا ہاتھ پکڑ کر کھانے کی میز پر لے جاتے اور وہاں پڑی ہر چیز کو ایک بہترین مہمان نواز کی طرح میرے آگے بڑھاتے.دنیا کی پرانی سے پرانی اور بہترین شرابیں بھی میرے آگے کرتے. میں ایک ایک چیز بڑے ہی شکرئیے کے ساتھ واپس کرتا جاتا کیونکہ ان سب میں حرام اشیاء شامل ہوتیں یا خنزیر کے گوشت والی چھری ان پر استعمال ہوئی ہوتی. یہ میری انکی میٹنگ میں پہلی اور آخری حاضری تھی. لے دے کر میرے کھانے کے لئے حلال اشیاء کی صورت میں صرف ایک بریڈ اور آئسکریم بچی، جو میں نے اس دن بڑی ہی شرمندگی کے انداز میں انکے ساتھ تکلفانہ کھائی. پھر ڈانس کا دور شروع ہوا تو بڑی ہی خوبصورت نوجوان لڑکیوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر پیشکش کی کہ ہمارے ساتھ ڈانس کرو گے. میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں واش روم سے فارغ ہو کر آتا ہوں. اور پھر وہیں سے میں ایسا نکلا کہ پھر کبھی ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ یونین کی کوئی میٹنگ ہی اٹینڈ نہ کی. اس میں میرے نارویجن دوستوں کا کوئی قصور نہ تھا انکا تو کلچر تھا اور جو وہ کرتے تھے بڑے ہی ایماندارانہ انداز میں میرے لئے بھی پسند کرتے. یہ میری مجبوری تھی کہ میرے ضمیر و عقل و شعور نے مشورہ دیا کہ ملک، ایک طرف دنیا جہان کی آسائشیں اور دوسری طرف تیرا دین دھرم، اللہ اور رسول صل اللہ علیہ و سلم کے احکامات ہیں جسے جی چاہے قبول کر لو. لہزا میں نے ملالہ اور اسکا باپ یا رشدی اور تسلیمہ نسرین بننے کے بجائے ادنی سا غلام محمد صل اللہ علیہ و سلم بننا پسند کیا.اور وہ راستہ ہی چھوڑ دیا جس پر چل کر میرے دین پر انگلی اٹھنے اور میرے ایمان کے متزلزل ہونے کا اندیشہ تھا.
1984 میں ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ مینجمنٹ کا کورس کر رہے تھے اور اس میں وائنز کے متعلق ایک پورا سبجیکٹ تھا. کل چھ نمبرز تھے جن میں دو نمبر صرف اس مضمون کے تھے. جب بھی شراب کے مضمون کا پیریڈ ہوتا استاد سب کو ہر ایک شراب چکھا کر پریکٹیکل کرواتا جبکہ میں انکار کر دیتا. ایک دن استاد نے بڑی سادگی سے مجھے کہا یہ ایک تیس فیصد نمبرز کا مضمون ہے تم کہیں فیل نہ ہو جاؤ لہزا تم بیشک پیئو مت مگر منہ میں ڈال کر ٹیسٹ کر کے قلی کر دیا کرو. میں نے انکار کر دیا اور کہا کہ میں بغیر پریکٹیکل کے ہی پاس ہونے کی کوشش کروں گا اور الحمد للہ وہ امتحان میں نے حرام چکھے بغیر پاس بھی کر لیا.
دنیاوی مفادات اور شہرت اپنے دین دھرم اور تشخص کو داؤ پر لگائے اور اللہ اور رسول صل اللہ علیہ و سلم کے کھلے دشمنوں کے ساتھ بغل گیر ہوئے بغیر بھی حاصل کئے جا سکتے ہیں. ملالہ اور اسکے والد ضیا الدین نے سستی شہرت اور راتوں رات دولتمند بننے کا بڑا گھٹیا طریقہ اختیار کیا. اس کے بعد اگر ان میں کچھ غیرت ہوتی تو انہیں اسلام کو بھی Good by کہہ دینا چاہیے تھا کیونکہ اسلام میں منافقین کی سزا دوزخ کے سب سے نچلے درجے کی ہے یعنی مشرکین سے بھی بدتر.

Comments

Popular posts from this blog

نواز شریف، مریم اور کپٹن(ر) صفدر کی گرفتاری اور پھر ضمانت پر رہائی، نظام عدل کی رسوائی یا عزت افزائی؟

1974 اور 2018 کے سعودیہ میں فرق.