ہمارا انگریزی عدل اور اس بیماری کا علاج.


ہمارا انگریزی عدل اور اس بیماری کا علاج.
رہی اس قدر ادھوری مری دکھ بھری کہانی
کبھی میں نے ہوش کھوئے کبھی انکو نید آئی
یہ عدالتیں نہیں زلالتیں ہیں. یہ نظام انسانیت کی توہین ہے. بیس بیس سال گزر جاتے ہیں انہی چکروں میں کہ
کبھی مخالف وکیل کوئی نہیں کبھی میرا وکیل کوئی، کبھی ہڑتال ہو گئ ہے اور کبھی جج چھٹی پر ہے. کبھی ڈسٹرکٹ بار کے الیکشن ہیں تو کبھی ہائیکورٹ بارے کے. گواہوں کو جرح کے وقت جان بوجھ کر ججز کے زریعے کئی کئی ماہ بلا بلا کر زلیل کیا جاتا ہے حتی کہ وہ اس نظام سے ہی متنفر ہو جاتے ہیں گویا،
ججز، وکلا اور ایڈمنسٹریشن شیطان کی مجلس شعوری کے پکے ممبرز ہیں اور بقول علامہ اقبال رحہ شیطان کی اس ہدایت پر نیک نیتی سے عمل پیرا ہیں کہ
مست رکھو زکر و فکر صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے
یعنی کہ انسان کو نقلی اسلام (مزاج خانقاہی) قبروں پر منتیں مانگنا، حدیث کے بغیر قرآن سمجھ نہیں آتا چاہے وہ جید علما کے روپ میں چھ لاکھ کی تعداد میں یہود و نصارٰی اور ایرانی آتش پرستوں نے ہی جمع کی تھیں اور چھانٹی کے بعد ساٹھ ہزار ہی رہ گئی تھیں ، یہ ڈبہ پیر یہ کتا پیر، یہ کچھوے شاہ یہ گھوڑے شاہ، کڑے شاہ، گامے شاہ، ڈبل شاہ، یہ سپاہ محمد، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی،دیوبندی، وہابی، سنی، انگریزی نظام عدل ، جیسے نقلی اسلام کے چکروں میں ڈالے ہوئے ہیں. یہ سب شیطان کے چیلے وہی کام کر رہے ہیں جو ڈنگہ منڈی (کھاریاں) کا ایک شیطان پیر کیا کرتا تھا سنا ہے کہ وہ بدبخت اپنے مریدوں کو اپنی نالیوں کا پانی پینے پر مجبور کیا کرتا تھا. یعنی اس اشرف المخلوقات کو جسے جسمانی و روحانی دونوں لحاظ سے ستاروں پر کمندیں ڈالنا اور مقام لاہوت (عرش معلی جسے آگے کوئی مقام نہیں) کا طائر بننا تھا اسے بلندیوں کے بجائے زلت کی اتھا گہرائیوں میں پہچا دیا گیا ہے.
وکلا اور ججز جان بوجھ کر اس زلیل انگریزی نظام عدل کو ہی جاری رکھنا چاہتے ہیں. اس کی درج ذیل وجوہات ہیں.
1- کوئی روش اختیار کرنا انسان کے لئے آسان ہے مگر اسے چھٹکارا حاصل کرنا تقریباً ناممکن کیونکہ کسی روش پر چلتے چلتے انسان پختہ تر ہو جاتا ہے حتی کہ وہ اندھا، گونگا اور بہرہ ہو جاتا ہے اور وہ نئی روش سے رجوع کرنا بھی چاہے تو نہیں کر سکتا بلکہ اسکو اسی میں مزا آتا ہے.اس روش سے اسے نکلنے کا کہو تو وہ ایسا سوچتےیی اپنے سائے سے بھی ڈرتا ہے. جو رزق حرام وہ کما رہا ہوتا ہے اسکے چھن جانے سے ڈرتا اور نئے زریعہ روزگار اور رازق پر اسکا ایمان کمزور تر ہو چکا ہوتا ہے.
2- کسی ایک روش سے نکل کر دوسرے روش اختیار کرنے کے لئے اتنی ہی طاقت، ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے جتنی کہ زمین کے مدار سے نکل کر چاند کے مدار میں داخل ہونے کے لئے ایک راکٹ کو. اور یہ طاقت، ہمت انسان کی پہلے والی روش پر چل چل کر انتہائی ماند پڑ چکی ہوتی ہے اور وہ تقریباً بزدل بن چکا ہوتا ہے.
3- میری اطلاع کے مطابق ججز اس وقت بیسک تنخواہ دو لاکھ تا پانچ لاکھ اور معہ الاؤنسز تین لاکھ تا دس لاکھ روپے لے رہے ہیں لہزا وہ اس انگریزی نظام عدل کو تیس نیس کر کے اپنے پاؤں پر کلہاڑی کیوں ماریں گے. یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام عدل کی بجائے وہ ہمیشہ اؤل تو یہی رٹ لگاتے نہیں تھکتے کہ ہمارے نظام عدل میں کوئی بنیادی خرابی ہے ہی نہیں (حالانکہ اس نظام عدل کی تو بنیادیں کھوکھلی ہو چکی ہیں) اور اگر کوئی موجودہ چیف جسٹس جیسا آیا بھی تو اس نے اسی فسردہ نظام کو ہی کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دی. حالانکہ یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ جب انسان اپنی کج فہمیوں، بدعمالیوں اور بےایمانیوں کی وجہ سے کسی نظام /قانون کو اس حد تک مفلوج کر کے رکھ دیں تو پھر اسے کینسل کر کے اسکی جگہ نیا نظام /قانون لانے کے سوا اور کوئی چارہ ہی نیں بچتا . ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کے سلسلے کو دیکھ لیں باوجود اسکے کہ وہ سب دین الاہی لے کر آئےپھر بھی پچھلے کتابیں (Theories of life) کینسل کر دی گئیں. جو لوگ نئے نبی اور نئے دین کو مان گئے وہ الگ کر لئے گئے اور جو ہماری طرح نہ مانے انہوں نے دین کو بگاڑ کر اپنے اپنے مزاہب (دین کی بگڑی ہوئی اشکال) بنا لئے.جیسے ہندو ازم، بدمت، موجودہ عیسائیت، یہودیت وغیرہ.

Comments

Popular posts from this blog

نواز شریف، مریم اور کپٹن(ر) صفدر کی گرفتاری اور پھر ضمانت پر رہائی، نظام عدل کی رسوائی یا عزت افزائی؟

1974 اور 2018 کے سعودیہ میں فرق.