کیا الیکشن 2018 کے بعد ہم معاشی و اقتصادی بھنور سے نکل پائیں گے


نااہل سے نااہل ترین لیڈر اور کمزور سے کمزور سیاسی پارٹی حتی کہ فوجی آمروں کے دور حکومت میں بھی کچھ نہ کچھ معاشی و اقتصادی اور سیاسی استحکام آ ہی جاتا ہے اگر،
1- معاشی، اقتصادی، داخلی اور خارجی پالیسیاں اتفاق رائے سے بنائی جائیں اور انکے تسلسل کو برقرار رکھا جائے. حکومتیں بدلتی رہیں مگر پالیسیوں میں تبدیلی بھی اتفاق رائے سے کی جائے.یہی اصل جمہوریت ہے، ہمارے ہاں تو ستر سال سے جمہوریت نہیں جمہوری تماشا لگا ہوا ہے. سیاسی پارٹیاں حکومت کیا ہر بار ایک نیا پاکستان بناتی ہیں اور یہ نیا پاکستان بنتے بنتے اصل پاکستان کا حلیہ ہی بگڑ چکا ہے. ہمارے سیاسی لیڈروں کی تو مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کسی احمق کے ہاتھ لگ گئی بلی اس نے اسے دلکش بنانے کے چکر میں نہلا نہلا اور نچوڑ نچوڑ کر جان سے ہی مار دیا.
2- ملک میں امن و امان اور Law and order کی فضا قائم اور انویسٹرز کے لئے حکومتی پالیسیاں گرنٹڈ ہوں.
3- تجربہ کار ریٹائرڈ ماہرین اقتصادیات و معاشیات بالخصوص سابقہ گورنرز اسٹیٹ بینک پر مشتمل ایک اقتصادی سیکورٹی کونسل بنا دی جائے جو ہر حکومت کی نئی پالیسی کو نافذ کرنے سے پہلے پالیسی کی کامیابی و ناکامی پر بے لاگ رائے دے. اس طرح ملک نت نئے اناڑی وزراء خزانہ کے تجربات سے اٹھنے والے نقصانات سے بچ جائے گا.
ہندوستان کے مرحوم وزیراعظم جواہر لال نہرو طنزاً کہا کرتے تھے میں نے تو اتنی دھوتیاں نہیں بدلیں جتنے پاکستان کے صدور بدل چکے ہیں لہذا ہم مسئلہ کشمیر پر بات کس سے کریں. ہمارے نکھرے آج بھی وہی ہیں آج ہمیں فارن انویسٹرز سے یہی طعنے سننے پڑ رہے ہیں کہ انہیں ہماری ہر حکومت بلکہ ہر لمحہ بدلتی اقتصادی و معاشی اور تجارتی پالیسیوں پر کوئی یقین نہیں. افسوس کہ چائنہ، ترکی اور ملائشیا جیسے کامیاب پالیسی ساز لوگ ہمارے دوست تو ہیں مگر ہم نے کبھی انکی نقالی کی کوشش بھی نہیں کی، انکے قدم پر قدم رکھ کر انکے پیچھے پیچھے چلنا بھی گوارا نہیں کیا. آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرض ملتے جا رہے ہیں اور وہ رنڈی ماں کے بچے کی طرح بیکار بیٹھ کر کھائے جا رہے ہیں.

Comments

Popular posts from this blog

نواز شریف، مریم اور کپٹن(ر) صفدر کی گرفتاری اور پھر ضمانت پر رہائی، نظام عدل کی رسوائی یا عزت افزائی؟

1974 اور 2018 کے سعودیہ میں فرق.