وقت آ گیا ہے کہ عمران خان اور انکے وزرا طالبان کے بارے
نرم گوشہ رکھنے والی پالیسی کو خیر باد کہہ دیں.
سجناں باج ناں یاریاں بھائیاں باج نہ کنڈ
میں باج بھراواں ماریا میری ننگی ہو گئی کنڈ
شرافت اپنی حد سے بڑھ جائے تو بے غیرتی اور اپنی حد سے گر جائے تو بزدلی کہلاتی ہے.
بہادری اپنی حد سے بڑھ جائے تو ظلم اور بربریت کہلاتی ہے.
صبر اپنی حد سے بڑھ جائے تو منافقت اور تماشبینی کہلاتا ہے.
یہی کچھ آج مجھے عمران خان اور اسکے وزیر داخلہ شہر یار آفریدی سے کہنا ہے کہ ایس پی طاہر دارؤڑ شہید جیسے محب وطن کے اغوا کے بعد اتنی زیادہ حکومت کی خاموشی، بےحسی، بے بسی اور بے کسی اور پھر اسلام آباد تا افغانستان تک تین سو کلو میٹر کے سفر میں کم از کم تین سو نہیں تو ایک سو تین چیک پوسٹ ہونے کے باوجود مجرموں کو نہ روکنا، انٹیلیجنس ایجنسیوں اور پولیس کا Failure ہماری مجرمانہ غفلت اور شہریوں کے بارے حکومتی حفاظتی ضمانت کی بدترین ناکامی نہیں تو اور کیا ہے. مجھے سو فیصد یقین ہے کہ اگر کسی کافر ملک میں یہ واقعہ ہوا ہوتا تو اسکا وزیراعظم اب تک مارے شرم کے استعیفا دےکر گھر چلا گیا ہوتا.
مگر افسوس در افسوس کہ حکومت نے نہ صرف غیر ضروری حد تک مجرمانہ خاموشی اختیار کئیے رکھی بلکہ اپنی اس نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لئے سی سی ٹی وی کیمروں کی بندش اور انکی بری کارکردگی کا بہانہ بنا کر اور سابقہ حکومت کو انویسٹی گیشن کی دھمکی دیکر اپنے گناہوں کو واش کرنے کی بھی ناکام کوشش کی ہے. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کب تک دوسروں کی نیکیاں اپنے نام اور اپنے گناہ بھی دوسروں کے سر تھوپنے والی پالیسی پر عمل پیرا رہے گی. اس مکار رن اور شیدے ٹلی والی پالیسی کو حکومتی پالیسی کا بنیادی ستون بنا کر حکومت بالآخر خود بھی بدنام اور غیر مقبول ہو جائے گی.
راقم کے ناقص خیال کے مطابق تو ایس پی طاہر دارؤڑ کی شہادت کے واقعہ نے عمران خان کے دل میں طالبان بارے نرم گوشے والی پالیسی کو شدید جھٹکا لگایا ہے. حکومت نے اغوا والے دن سے لیکر انکی شہادت کی خبر سننے تک اس احمقانہ سوچ کے تحت ہی اندر بیٹھکر وقت گزار دیا کہ پاکستانی طالبان عمران کے احسان مند ہیں اور پی ٹی آئی کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں لہزا حکومت آخر وقت تک اسی خوشی فہمی میں مبتلا رہی کہ شہید ایس پی کی زندگی کو کوئی خطرہ نہیں اور یہ مسئلہ مزاکرات کے زریعے ہی حل ہو جائے گا.
عمران خان بلکہ پوری پی ٹی آئی کو اب تو پی پی پی کی پاکستانی طالبان مخالف پالیسی کو سمجھ جانا اور بینظیر کی شہادت اور چھ ہزار فوجی جوانوں اور اعلی افسروں اور ساٹھ ہزار عام پاکستانیوں کی شہادت کو اہمیت دینی چاہیے اور پاکستانی طالبان کے خلاف سخت ترین اور فیصلہ کن اپنی فوج والی پالیسی اپنانی چاہیے.
Comments
Post a Comment