آگا دوڑ تے پچھا چؤڑ




اسٹیٹ بینک نے نئے نوٹوں کے لئے یکم جون سے
 SMS
 سروس شروع کرنے کا اعلان کر دیا.مخصوص بینکوں سے یہ نوٹ ملیں گے.
خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا.
بوسیدہ اور ریت کی بنیادوں پر ملکی اقتصادیات کی عمارت کھڑا کرنا ہمارے ہر گورنر اسٹیٹ بینک اور وزیر خزانہ کا محبوب مشغلہ رہا ہے. ستر سال سے اسٹیٹ بینک، فین روڈ لاہور کے عین سامنے ہاتھوں میں نئے نوٹوں کے بنڈل لئے 10% کمشن کے عوض پرانے نوٹوں سے تبدیل کرنے والے بیٹھے درجنوں مرد و زن گورنر اسٹیٹ بینک اور لا اینڈ آرڈر فورسز کا منہ چڑھا رہے ہوتے ہیں.
گویا ہر شعبے کی طرح اسٹیٹ بینک کے سسٹم کے ساتھ ساتھ بھی ایک بلیک مارکیٹنگ (Under the table)
 کاروبار چلایا جا رہا ہے (واضح رہے کہ میں نے دانستہ "چل رہا ہے کے الفاظ استعمال نہیں کئے) کیونکہ میرے علم کے مطابق اسٹیٹ بینک کی ناک تلے چلنے والا یہ غیر قانونی کاروبار کسی صورت بھی اسٹیٹ بینک ملازمین کی مرضی، انکی حصے پتیوں اور ہائیکورٹ کے کچھ وکلا کی آشیرباد کے بغیر چلانا ممکن ہی نہیں. یہ بات اور بھی واضح ہو کر آپکی سمجھ میں آ جائے گی جب آپ سیاسی نظام سے لیکر امور مملکت اور شناختی کارڈ بنوانے سے لیکر پاسپورٹ بنوانے تک اور ٹیکسیشن کے نظام سے لیکر نظام عدل تک ہر فیلڈ میں ایک متوازی نظام منتظمین کی آشیرباد سے قائم دیکھتے ہیں . ایسے میں اسٹیٹ بینک کی طرف سے چند بینکوں کو بزریعہ 
SMS
 نئے نوٹ پبلک کو فراہم کرنے کی نمائشی ہدایت کرنا کیا معنی رکھتا ہے. گورنر اسٹیٹ بینک اپنی ناک تلے نئے نوٹوں کی بلیک سیل ختم کر کے ٹھوس بنیادی اور نظام کے اندر نظام کو ختم کر کے پبلک کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کا مسئلہ حل کیوں نہیں فرماتے؟

Comments

Popular posts from this blog

نواز شریف، مریم اور کپٹن(ر) صفدر کی گرفتاری اور پھر ضمانت پر رہائی، نظام عدل کی رسوائی یا عزت افزائی؟

1974 اور 2018 کے سعودیہ میں فرق.