Ex- prime - minister and Justice Abad-ul-Rehman Loddhi.





تین لاکھ یا تین ارب کر گے اسکا بیڑا غرق 
آؤ دیکھیں اصل میں ان میں ہے کیا فرق 

پچاس سال پہلے تین لاکھ روپے میں خرید کی گئی پراپرٹی جسکی آج مارکیٹ ویلیو تین ارب روپے ہے اس بھڑوے نے اپنے انتخابی پرفارما میں اسکی ویلیو تین لاکھ ہی لکھی ہے. اور دلیل یہ پیش کر رہا ہے کہ فارم پر لفظ Cost لکھا ہے جسکا ڈکشنری میں مطلب ہے وہ قیمت جس پر کوئی چیز (پراپرٹی) خرید کی گئی ہو.
یہ بھڑوا ملک کا وزیراعظم رہ چکا ہے اور ایک ائر لائن کے علاوہ درجنوں اور کاروبار بھی چلا رہا ہے مگر اسے یہ معلوم نہیں کہ Cost کا مطلب مختلف لینگویجز میں مختلف لیا جاتا ہے.مثلا
کوئی سودا/ پراپرٹی خریدتے وقت جو رقم ادا کی جاتی ہے اسے Cost ہی کہا جاتا ہے مگر قانونی زبان میں جب کیس ہارنے والے فریق سے جو خرچہ جیتنے والے فریق کو دلایا جاتا ہے اسے بھی کاسٹ ہی کہا جاتا. اور ٹیکس کی زبان میں کاسٹ کی ڈیفینش ہے.

COST BASIS DEFINITION,

Cost basis is the original value of an asset for Tax purposes, usually the purchase price, adjusted for stock splits, dividends and return of capital distributions. This value is used to determine the capital gain, which is equal to the difference between the asset's cost basis and the current market value.

لہذا Ex - prime minster کا یہ استدلال کہ پچاس سال پہلے کی قیمت خرید تین لاکھ روپے ہی Cost ہے غلط اور قانون کے ساتھ دھوکہ دہی ہے.
Cast is equal to the difference between the market asset's cost basis and the current market value.

جسے پٹواریوں کا سردار cast (تین لاکھ روپے) سمجھ رہا ہے وہ دراصل cost basis ہے.
اگر کوئی پٹواری سمجھنا چاہے تو میں دوسرے اور آسان ترین انداز میں سمجھاتا ہوں. مثلاً آپ جب کوئی جائیداد خریدتے ہیں تو سرکار اس کی رجسٹریشن پر جو کورٹ فیس (اشٹامپ) کی شکل میں ٹیکس وغیرہ لیتی ہے وہ جو قیمت خرید آپ نے شو کی ہوتی ہے نہ اسکی بیس پر اور نہ مارکیٹ ویلیو کی بیس پر کیلکولیٹ کرتی ہے بلکہ ایک درمیانی پرائس ڈی سی کے جاری کردہ شیڈول ریٹس کی بنیاد پر کیلکولیٹ کرتی ہے. بس یہی Cost ہے. لہذا جسٹس عباد الرحمن لودھی صاحب میرے ناپسندیدہ ترین جسٹس ہونے کے باوجود میں انکے شاہد خاقان عباسی کے خلاف فیصلے کو On merit اور In the interest of justice سمجھتا ہوں.

دراصل شاہد خاقان عباسی ہو یا شریف فیملی یا PTI کے جہانگیر ترین اور کئی سرمایہ دار یا ملک کی تمام دوسری سیاسی و مزہبی جماعتوں یا بیوروکریسی کے سرمایہ پرست سب کے سب اسی طرح اپنے Assets کی ویلیو قیام پاکستان کے وقت کی شو کر کے اور اثاثوں کو چھپا کر قوم کو لوٹتے رہے ہیں. یہ لوگ اخلاقی جرات کے فقدان کی وجہ سے تسلیم کریں یا نہ کریں انہیں آف شور کمپنیوں اور بیرون ملک سرمایہ کاری کی ضرورت ہی کالے دھن کو چھپانے کے لئے پیش آئی.

Comments

Popular posts from this blog

نواز شریف، مریم اور کپٹن(ر) صفدر کی گرفتاری اور پھر ضمانت پر رہائی، نظام عدل کی رسوائی یا عزت افزائی؟

1974 اور 2018 کے سعودیہ میں فرق.